۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
حجۃ الاسلام ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی

حوزہ/ عمید حوزہ علمیہ المہدیؑ امریکہ و امام جمعہ نیویارک نے اپنے ایک پیغام میں کہا کہ آج انقلاب کو 42 سال ہو گئے ہیں۔میڈیا کی آنکھ نے دیکھا کہ بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود امام راحلؒ کی قوم نے عزت و وقار قائم رکھا۔شیعہ سنی اتحاد برقرار رکھا۔ خود اعتمادی میں معراج حاصل کی۔اپنی مدد آپ سے نظام تعلیم کو عام کیا۔عمرانیات ، سماجیات، اقصادیات، معاشیات، مذہبیات اور حیاتیات میں بڑے بڑے ممالک سےپیچھے نہیں رہی، سائنس ٹیکنالوجی ، میڈیکل ، انجینئرنگ، اور حوزہ و دانش گاہ میں پوری دنیا میں نام پیدا کیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، عمید حوزہ علمیہ المہدیؑ امریکہ و امام جمعہ نیویارک، حجۃ الاسلام ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی نے کہا کہ انقلاب اسلامی کو بپا ہوئے 42 سال گزر گئے ہیں۔ جب انقلاب کامیاب ہوا تو میں گورنمنٹ کالج جوہر آباد میں بی اے اور جامعہ دارلعلوم الجعفریہ کربلا خوشاب میں فاضل عربی کا طالبعلم تھا۔ قبل از انقلاب ہم جلوس نکالتے اور ہمارے بینرز پر یہ لکھا ہوتا ایران ہے لہو لہو اسلام کیلئے ، ہم جان دینگے نائب امام کیلیے ۔ اس سفینہ ٔانقلاب پر قدم رکھے ہوئے مجھے ۴۳ سال ہوگئے  ہیں۔ اسلئے کہ ۱۹۷۸ ہی میں ہم جلوس نکالنے لگ گئے تھے۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے ان ۴۳ سالوں میں اپنا خط انقلاب اور ولایت فقیہ تبدیل نہیں کیا جیسا کہ چھ دہا ہییوں سے خط تشیع و ولایت علی ع نہیں بدلا۔ ہمارے معاصر قلابازیاں کھاتے رہے۔ مگر ہم معرب نہ بنے مبنی ہی رہے۔ الحمد للہ رب العالمین و لہ الشکر علی ہذہ النعمہ الہم ثبت اقدامنا علی ولایت محمد وآل محمد.

مولانا موصوف نے کہا کہ انقلاب اسلامی نے ایک طرف ڈھائی ہزار سالہ شہنشاہیت کے تخت و تاج تاراج کر دیے۔دوسری طرف فرعون دہر  کو اہرام مصرکا ہمسایہ بنا دیا۔دنیا کی ساری طاقتوں کا   پروردہ ایک بوریا نشین مجتہد سید  زاے کے سامنے گھٹنے ٹیک گیا۔ اسے پناہ بھی ملی تو فرعون کے شہر مصر میں۔ایک ایک دن میں پانچ پانچ ہزار شیعیان علیؑ کا قاتل دم دبا کر بھاگنے پر مجبور ہو گیا۔نہ دولت اس کے کام آ سکی ، نہ ہی رعب و دبدبہ، نہ ہی ارتش و سپاہ، نہ ہی اندرونی بیرونی طاقتیں۔ اللہ اکبر، خمینی  رہبر اور  خمینیٔ امام کے فلگ شگاف نعروں ، خون شہداء کی مہک عمامے اور حجاب کی سربلندی ، غیرت  و حمیت کے ماحول، علماء و عوام کی وحدت،بیوگان و یتامی ٰ کے نالوں، تعلیم و تربیت کی ضوفشانیوں ، رہنماؤں وکارکنوں کے احساس ذمہ داری  اور رہبر و قوم کے اخلاص نے پہلوی خاندان کی  آریہ مہر طرز پر بنائی گئی اندر سے کھوکھلی دیوار اقتدار کو ایسا دھکا دیا کہ اس کے انہدام سے فقط  شاہی خاندان  ہی  قصۂ پارینہ نہیں  بنا بلکہ ذلت و رسوائی کی تہوں میں تہس نہس ہو کر رہ گیا۔

انہوں نے کہا کہ جس قائد انقلاب کو ترکی کے راستے اکیلا  ملک بدر کیا گیا تھا۔وہ مہر آباد کے ائیر پورٹ پر شاہ کی بچی کچھی حکومت کے آثار کے باوجود شجاعت حیدری سے سبق لیتے ہوئے بھرا جہاز لے کر  فاتحانہ انداز میں اتر گیا۔اس قائد انقلاب کے ساتھیوں کے پاس نہ اقتدار تھا نہ اسلحہ، نہ دولت تھی نہ وسائل ،نہ نظام مواصلات تھا اور نہ ہی فارن کی سپورٹ ، مگر اس  نے ولایت علیؑ سے سرشار ہو کر  اور عزاداری حسین ؑ سے تیار ہو کر اپنے آہنی ارادوں ، عقیدوں کی پختگی ، اخلاص عمل اور  اتباع علماء کے ذریعے  کٹھ پتلی وزیر اعظم شاہ پور بختیار کو دم دبا کر بھاگنے پر مجبور کر دیا۔بوریا نشین مجتہد اعظم نے نہ شاہی محل میں قیام کیا ، نہ وزیر اعظم ہاؤس میں ، نہ خاندان پروری کی ،نہ دولت جمع  کی ،نہ ہی کوئی حکومتی عہدہ لیا، نہ ہی اپنے خاندان کو کوئی عہدہ دیا۔ابتدا میں ایک اسکول میں اور اس کے  بعد تادم مرگ ایک امام بارگاہ کے جوار میں کرائے کے دو کمروں  پرمشتمل سادہ مکان میں زندگی گزار دی ۔

عمید حوزہ علمیہ المہدیؑ امریکہ نے مزید فرمایا کہ وہ جس کی نگاہ میں کوئی نگاہ ڈال کر بات نہیں کر سکتا تھا  ۔ وہ جس کے ایک علوی لہجہ کی گھن گرج سے مشرق و مغرب کانپ جاتے تھے ۔وہ جس نے یہود و سعود کی نیندیں حرام کر دیں۔دوکمروں کے  اس چھوٹے سے مکان میں بغیر صوفہ سیٹ اور بغیر بیڈ کے زندگی گزار گیا۔وہ پتلی سی میٹرس پر سوتا تھا ۔تقریر کے علاوہ زمین پر ہی بیٹھتا تھا۔اس نے فقیری  میں درس اتباع شبیری دیا۔آج انقلاب کو 42 سال ہو گئے ہیں۔میڈیا کی آنکھ نے دیکھا کہ بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود امام راحلؒ کی قوم نے عزت و وقار قائم رکھا۔شیعہ سنی اتحاد برقرار رکھا۔ خود اعتمادی میں معراج حاصل کی۔اپنی مدد آپ سے نظام تعلیم کو عام کیا۔عمرانیات ، سماجیات، اقصادیات، معاشیات، مذہبیات اور حیاتیات میں بڑے بڑے ممالک سےپیچھے نہیں رہی، سائنس ٹیکنالوجی ، میڈیکل ، انجینئرنگ، اور حوزہ و دانش گاہ میں پوری دنیا میں نام پیدا کیا۔

حجۃ الاسلام سندرالوی مزید اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کی بہت ساری مظلوم اقوام کو ظالموں کے چنگل سے نجات دلوائی۔داعش جیسی بدنام زمانہ دہشت گرد تنظیم جس کے سامنے مشرق و مغرب گھٹنے ٹیک گئے تھے کو  شام اور عراق سے دفع دور کر دیا۔آج سے 42 سال قبل اگر ایران میں سینکڑوں مجتہد تھے تو  آج   ہزاروں ہو گئے ہیں ۔اگر اس وقت ہزاروں طالب علم تھے تو  آج  لاکھوں ہو گئے ہیں۔دنیا میں جہاں جہاں سعود ی عرب نے دہشت گردی پھیلائی ، وہاں وہاں انقلاب اسلامی نے امن کے سفیر بھیجے۔سعود ی عرب نے بدمعاشوں کے ہاتھوں میں کلاشنکوفیں دیں تو اسلامی جمہوریہ نے شرفا کے ہاتھوں میں تسبیحیاں تھمائیں۔ سعودی عرب نے دہشت گردی کے اڈے بنائے تو اسلامی جمہوریہ نے مدارس کی سرپرستی کی۔فلسطین ، کشمیر، بحرین،یمن، سعودی عرب،عراق ، شام ، افغانستان، پاکستان اور دنیا بھر کی مظلوم اقوام پر ہونے والے مظالم کے خلاف موثر صدائے احتجاج بلند کی۔ بیت اللہ کی یہود و سعود کے ہاتھوں سے آزادی کی مہم شروع کی۔

انقلاب کو 42 سال گزر گئے آج بھی ایران کے پورے ملک میں کہیں بھکاری نظر نہیں آتا۔شہروں کی صفائی پیرس کو شرما دیتی ہے۔شہروں کی روشنیاں لندن کو پیچھے چھوڑ دیتی ہیں۔تعمیراتی رونقیں یورپ ، دبئی، امریکہ و کینیڈایا برطانیہ سے کم نہیں ۔مواصلاتی نظام عرب امارات کو آئینہ دکھاتا ہے۔تہذیب کی بلندی اقوام عالم میں پیش رو ہے۔42 سالوں میں رہبر کی بوریا نشینی ارباب اقتدار کی سادگی اور قوم کی پراعتمادی میں کمی نہیں آئی ۔ اسلامی انقلاب  علماء و زعماء، طلباء و کلاء، امراؤ و غربا،شرفا و حکماء،چھوٹے بڑے زن و مرد،شہری دیہاتی ، عرب و عجم ،سائنسدان ، آرٹسٹ، ڈاکٹر و مریض، تاجر و مزدور اور ہر شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے خواص و عوام کا مرہون منت ہے۔

آخر میں کہا کہ اقصادی پابندیوں ، مختلف ممالک میں  اثاثوں کے انجماد، اقوام متحدہ کی عدم تعاون کی پالیسیوں  اور مشرق و مغرب کی اسلامی جمہوریہ کو تنہا کرنے کی پالیسیوں کے باوجود  اس ملک و قوم کا آب و تاب سے زندہ رہنا ، شان و شوکت سے اپنے وجود کو برقرار رکھنا اور مستقل مزاجی سےاپنی مدد آپ کے تحت کرونا وائرس سمیت  ہر تہاجم کا مقابلہ کرنا  اور اپنی وجاہت پر حرف نہ آنے دینا ایک ایسا زندہ معجزہ ہےجو اگر بے نظیر نہیں تو کم نظیر  ترین ضرور ہے۔دہۂ  فجرکے موقع پر میری  دعا ہے کہ اللہ کریم انقلاب اسلامی ،اسلامی جمہوریہ ، رہبر معظم، مراجع کرام، علماء و خواص و عوام اور ملت مبارز کو اپنی حفظ ایمان میں رکھے۔امام راحل ؒ ،مرحوم مراجع، و علماء و شہداء کے درجات متعالی فرمائے۔ این دعا از من  و از جملہ جہان آمین باد

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .